دھند 4

  بوجھ جدائی کا ہو یا کوکھ میں پلنے والی اولاد کا ، دونوں ان دیکھے ہوتے ہیں . آپ کے خون پر پلتے  اور  پروان چڑھتے ہیں اور پھر بھی کس  قدر  عزیز ہوتے ہیں.
 کپڑے دھوتےہوے اس کے لبوں سے بے اختیار  ایک کرا ہ  نکلی اور اس نے اپنی کمر کو تھا ما . اسے شبہ تھے کہ ایک بار پھر اس کی کوکھ میں کوئی پھل  اپنی جڑ کھود  چکا ہے. مگر  ابھی تو وہ خود بھی لا علم تھی. اسے زور  دار چکّر آیا .  ابھی اسےکئی  ایسےپر  مشقّت کام کرنے تھے . آرام تو اس کے نصیب میں تھا ہی نہیں.

  اچانک اسےبڑے  ہسپتال کی ڈاکٹرنی   بڑی شدّت سے یاد آئی . کتنی سختی سے پچھلی بار اس نے زیب  گل کو مشقّت والے کام نہ کرنے کی ہدایت کی تھی. پچھلی دو بار بھی تو یہی ہوا تھا . اسے خبر بھی نہ ہو سکی تھی اور اس کا  بچہ اس دنیا      میں آنے  سے قبل ہی رخصت ہو گیا تھا . اولاد پیدا  نہ کر نےکا الزام ایک بار پھر اسے زخم زخم کرنے والا تھا.

درد کی شدّت اور کمزوری کے چکّر  نے اسے اس لمحے ایسا ہوش سے بیگانہ کیا کہ وہ وہیں دراز ہو گئی . ٹونٹی کا   بہتا  پانی بند  کرنے والا کوئی نہیں تھا.



=======================================


وہ لوگ اب  ٹیریس پر تھے . وہاں سے نیچے جھانکتے ہوے کئی بار اس نے   زندگی کی خوبصورتی کو قریب   سے محسوس کیا تھا. منظر آج بھی وہی تھا، خوبصورتی آج بھی وہیں تھی مگر وہ اسے محسوس نہیں کر پا رہی تھی 

"کیا سوچ رہی ہو ہنی "

"یہ کہ یہ سب کچھ کتنا حسین   تھا پہلے  جب ہم ایک مکمّل فیملی تھے"

"ہم اب بھی مکمّل فیملی ہیں ہنی"

وہ خاموشی سے ہنس دی . اس ایک ہنسی میں کیا کچھ نہیں تھا ، دکھ، یاد، طنز. 

"کیا لو گی"

"نو فورملیتی ڈیڈ "


"مجھے پتا ہے تم نے  لنچ بھی نہیں کیا ہوگا پریزنٹیشن کی ٹینشن  میں، کچھ منگوا لو ہم دونوں کے لیے "

وہ ایک لمحے کو انہیں دیکھتی رہ   گئی. انکو کیسے پتا تھا یہ سب، انہوں نے تو کبھی اسے سٹریس کے لمحوں میں دیکھا بھی نہیں تھا 

  بہت خاموشی تھی وہاں ، وہ دونوں چپ تھے ، جب کہنے کے لیے بہت کچھ ہو تو کبھی کبھی الفاظ بھی کھو جایا کرتے ہیں 


کلب سندویچ اور کافی کی آمد نے بھی کچھ نہیں بدلہ ، وہ خاموشی سے  خواہش نہ ہونے کے باوجود  کھاتی رہی 

آس پاس لوگ تھے، گہما گہمی تھی ، وہ ایک مشورشخصیت تھے اور ان دونو باپ بیٹی کے درمیان بہت سے گلے شکوے تھے ، وہ یہ ساری  باتیں یہاں نہیں کر سکتے تھے ،اسی لیے انہوں نے زینیا کو اپنے کمرے میں چلنے کو کہا 

وہ انکار نہ کر سکی ، وہ اپنے باپ سے ایک سال سے بھی زاید عرصے کے بعد مل رہی  تھی ، اختلافات کے باوجود وہ یہ جانتی تھی کہ وہ دنیا میں پہلا شخص تھا جس  سے اس نے شدید محبّت کی تھی، اور انہی شیددتوں کی وجہ سے وہ ان سے اب شدید خفا بھی تھی ، جذبے حددود نہیں دیکھتے ، وہ ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے  ، خون کے رشتے ہوں یا خود ساختہ جوڑے گئے تعلّق، شدّتیں جذبوں کی معراج ہوا کرتی ہیں 

انکا سیل فون بجنے لگا 

"کوئی نام دیکھ کر انہیں یاد آیا  " اوہ کانفرنس کو تو میں بھول ہی گیا

پھر انہوں نے فون پر بات کرتے ہوے کسی کو ٹیریس پر بلایا تھا 

چند لمحوں بعد جو شخص زینیا کے مقابل تھا وہ اب اجنبی نہیں رہا تھا 

" آؤ عمر " شاہ صاھب  بولے" میری بیٹی سے تو تم مل چکے ہوگے  ڈاکٹر زینیا شاہ"

"آپ کی بیٹی؟"

"ہنی یہ عمر ہے حیات الله کا بیٹا ، نیورولوجسٹ، امریکن بورڈ "

ہنی؟" وہاں عمر  اب تک شدید الجھن میں تھا " اوہ" تو اسے  کیوں محسوس ہوتا رہا کہ وہ اسے پہلے کہیں دیکھ چکا ہے. تو یہ تھیں ہنی شاہ ، ، احسن شاہ بخاری کی مشہور ماڈل بیٹی جو اب کافی عرصے سے میڈیا سے غائب تھی   

"عمر میں اپنے سویٹ میں جا رہا ہوں ، ہم دونوں باپ بیٹی کو کچھ تنہائی چاہیے ، شام کو ملتے ہیں پھر ڈنر پر. رات یہی "  ٹھہر رہا ہوں، بائی دی وے  ولل ڈن فور کانفرنس ارنج منیس

"نو پرابلم انکل لیکن صرف ایک شرط ہے ، رات کا کنسرٹ ضرور اتٹنڈ کریںگے  آپ"

 اگر میرے ٹیسٹ کے مطابق  ہوا" وہ مسکرا کر بولے" اور اٹھ کھڑے ہوے 

زینیا ہنوز خاموش تھی 

عمر انہیں لفٹ تک چھوڑر کر رخصت ہو گیا 

اور وہ سوچتی رہی کہ وہ عمر حیات جو اس کے گھر چھوڑ کر جانے کی ایک وجہ تھا وہ اسے کہاں آ کر ملا تھا 

====================================
 

 ،

  

Comments

Popular posts from this blog

ڈر لگتا ہے

Mustansar Hussain Tarar . (A gesture of gratitude on 75th birthday)