دھند 9

، اپنی ساری سنبھالتی ہائی ہیل  کی جوتی میں سہج سہج کر قدم اٹھاتی وہ اوپن ایر کی نشستوں کے قریب پہنچ گئی تھی ،  
وہاں جہاں سرخ سیڑھیاں دور نیچے اترتی  دکھائی دیتی تھیں  . بیچ میں اسٹیج بنا تھا جہاں محفل سجی تھی 
سازندے ساز چھیڑے بیٹھے تھے ، ستار ، طبلے اور ہارمونیم کی  مدغم ہوتی لے اور تان عجیب فسوں طاری کر رہی تھی 

وہ اخیر کی سیڑھیوں پر بنی نشست پر آ کر بیٹھ گئی ، یہاں سے منظر واضح دکھائی دیتا تھا ، دبیز پھیلی دھند کے باوجود . روشنی اس قدر تھی جتنی نگاہوں کو بھاتی ، روشنی اور اندھیرے کی منطق بھی کچھ عجیب ہے ، آپ اگر ان کے ملاپ اور دوری کے بندھن کو سمجھ سکیں تو منظر  خوبصورت ہی نہیں ہو جاتا ، پراسرار بھی ہو جاتا ہے 

کوئی اسرار تھا آج کی شب میں ، یا زینیا شاہ کو محسوس ہو رہا تھا 
کوئی اسرار جو راز کھول دینے کو بے قرار تھا، مگر وہ آنکھیں بند کیے  بیٹھی تھی 

کبھی کبھی خوف ہوتا ہے کہ راز کھل گیا تو کیا ہوگا ، کیا وہ سب جو اب ہے ، وہ بھی ہاتھ سے چلا جاتے  گا

کوئی موہوم سی آس ، کوئی دھیمی سی آنچ کوئی ان کہی سی  آہٹ ، کوئی ان سنی سرگوشی ، جس کی  آس  پر ہم زندگی کیے چلے جاتے ہیں ، وہ امید بھی نہ کھو  جاتے 

وہ اسی لیے آنکھیں اور کان بند  کر کے بیٹھی تھی 

رفتہ رفتہ لوگ آنے  لگے ، ہجوم ہونے لگا ، وہ موسیقی جو صرف وہ سن رہی تھی اب اس میں شراکت دار آ گئے تھے 

اس   نے عمر حیات کو مائک سنبھالتے دیکھا ، وہ کچھ کہ رہا تھا ، آج کی شام کے حوالے سے ، موسیقی کی نشست کے حوالے سے اور وہاں انے والے گائیک فنی صلاحیتوں کے بارے میں بتاتے ہوے  وہ اس ڈاکٹر عمر حیات نیورولاجسٹ سے کتنا مختلف محسوس ہو رہا تھا .زینیا کو ایک خوشگوار سی حیرت ہوئی 

باقاعدہ محفل کا آغاز ہو چکا تھا ، کافی طویل عرصے بعد وہ ایسی کسی محفل کا حصّہ بنی تھی ، اس لیے بھی اسے سب کچھ بہت اچھا محسوس ہو رہا تھا 

کچھ دیر بعد اس نے اپنے بائیں جانب کسی کو بیٹھتے ہوے دیکھا 

"واہ عمر کا انتخاب خوب ہےبھئی جبھی مجھ سے کہ رہا تھا آپ ضرور انجونے کریں گے انکل " احسن شاہ بخاری اس کے برابر بیٹھتے ہوے کہنے لگے 

"تمہیں اچھا لگا رہا ہے نہ ہنی ؟"  
، 
 جی ڈیڈ " وہ ہولے سے مسکرائی" 

"یہ جو امریکن ڈاکٹر ہے شیرل ، جس کے ساتھ عمر نظر آ رہا ہی سارا دن ، تم اسے جانتی ہو؟"

"نہیں" 

"یہ عمر کی کولیگ تھی امریکا میں ، نیوروپتھو لو  جسٹ  ہے "

"ہاں میں نے اس کی ٹاک  سنی تھی "

"دونوں انٹرسٹڈ ہیں شاید ایک دوسسرے میں ،حیات الله  بتا رہا تھا ، یہ خاص طور پر عمر کی فیملی سے ملنے آئی ہے "

"اچھا"

"هم ، شاید اس بار عمر کوئی فیصلہ لے ہی لے " 

"ہر کسی کو حق ہے ڈیڈ ، ہمیں کسی کی پرسنل زندگی سے کیا لینا دینا "

"کبھی کبھی کسی کی  پرسنل زندگی ہم پر اثر انداز ہو رہی ہوتی ہے  ہنی ، حیات اور میں اب بھی یہی چاہتے ہیں کہ تم اورعمر ایک دوسرے کو سمجھ سکو اگر......" 


وہ کسی مجسمے کی مانند بیٹھی رہی ، ایک لمحے کو شاہ صاحب کو بھی یہی لگا کہ وہ سنگ مر مر سے تراشا کوئی مجسمہ ہے ، جسے سرخ ساری  میں لپیٹ دیا گیا ہے ، جس کے چہرے پر کوئی نہ سمجھ میں آنے  والے احساسات چھا ے ہوے ہیں 
جو چھو لئے جانے پر بھی ویسی ہی سا کن رہے گی 

چند لمحوں کے لیے ان کا دل بھر آیا 

یہ ان کی خوبصورت اکلوتی بیٹی تھی جسے وہ جان سے بڑھ کر عزیز سمجھتے تھے مگر وہ ان سے کتنےفاصلوں  پر تھی  
کہ وہ اپنے دل کی بات بھی ان سے نہیں کیہ  پاتی  تھی 

کوئی ٹھمری چھیڑی گئی تھی اب ، ہر طرف خاموشی تھی ، ہوا بھی سا کن  تھی صرف موسیقی گونج رہی تھی اور دل کو گداز کے جا رہی تھی 


وہ کیسے بے اثر رہ سکتی تھی 

طبلے کی تان کے ساتھ اس کا دل ہمکنے  لگا 

"اکھیوں میں نہ آے  نندیا 
موہے نہ بھاے کاجل بندیا 
سونا پڑا  انگنا رے 
آن ملو سجنا 

چندا آے تا رے آ ے 
آ نے  والے سارےآے  
آے تم ہی سنگ  نا رے   
آن ملو سجنا 


بیتی  جاے یوں ہی عمریا 
کس رنگ سے میں رنگوں  چنریا 
بھا ے کوئی رنگ نا رے 
آن  ملو سجنا 

===================================================

Comments

Popular posts from this blog

ڈر لگتا ہے

Mustansar Hussain Tarar . (A gesture of gratitude on 75th birthday)