دھند (1)
صبح کے دھندلکوں میں لپٹے سرو اور چیڑ کے طویل قامت درختوں کےساے میں اوجھل ہوتے، گہری سبز ڈھلوانوں .و.
الے اس کاٹیج کے برآمدے میں کھڑی وہ اس کہر آلود منظر کا حصّہ بن چکی تھی
دھند دبیز تھی ، اس قدر کہ بلکل نزدیک کھڑے درخت بھی آنکھ سے اوجھل تھے . یوں ہی ہوا کرتا ہے .
دھند کے چہرے بدلتے ہیں ، فطرت ایک سی رہتی ہے وہ کوئی کہر آلود منظر ہو ، دھند سےبوجھل ہوتا احساس ہو، یا موت کے وقت آنکھوں میں اترآنے والا دھواں
ہو ، دھند ڈھانپ لیتی ہے . پردہ گرتا ہے. منظر تبدیل ہو جاتا ہے
=============================================================
وہ بھی کوئی اور دھند آلود صبح تھی جب اسے سویر کے اولین لمحوں میں نتھیا گلی سے بھوربن روانہ ہونا تھا . ٹھنڈ کافی تھی ، اتنی ضرور تھی کہ اسے ایک سویٹر کے ساتھ شال بھی اوڑھنی پڑ رہی تھی
، اسے جلدی نکلنا تھا کیوں کہ فاصلہ کافی تھا اور دھند نے اسے طویل تر بنا دینا تھا مگر ڈرائیور غایب تھا ، وہ بے چینی سے انتظار کے لمحے کاٹتی چہل قدمی کر رہی تھی، اور کوئی حل اس کے پاس تھا بھی نہیں
کلائی پر بندھی گھڑی اسے بتا رہی تھی کہ وہ کانفرنس میں بلا شک اور شبہ دیر سے پنہچے گی . اپنی پابندی وقت کی عادت . اسے یونہی کوفت میں مبتلا کر دیتی تھی.
حالاں کہ یہ بھی نہیں تھا کہ اس کی غیر موجودگی کانفرنس پر اثر انداز ہونا تھی.
پی سی بھوربن میں ہونے والی بینالاقوامی کانفرنس میں ڈاکٹر زینیا شاہ کو اپنی ریسرچ پر مبنی مقالہ پڑھنا تھا. یہ ایک سہ روزہ کانفرنس تھی جس میں اندروں اور بیرون ملک سے بہت سے مندوبین شریک ہو رہے تھے . نتھیا گلی کے سرکاری ہسپتال کے محدود ماحول سے شہری گہما گہمی کی جانب یہ سفر کافی عرصے بعد ہو رہا تھا، اس لیے وہ خوشی اور کچھ فکر کے ملے جلے احساسات سے دو چار تھی
راستہ اتنا طویل تو نہیں تھا، بھوربن وہ پہلی بار نہیں جا رہی تھی، یادوں کے بے شمار سلسلے ان راستوں اور اس مقام سے جڑے تھے، لمحے جو کھو گئے تھے اور جنھیں اب واپس آنا بھی نہیں تھا. لیکن کبھی کبھی ہم پرانے راستوں پر صرف اس لیے چل پڑتے ہیں کہ ہم ماضی کے ساحلوں کو حال کی لہروں سے چھونے کی خواہش کرنے لگتے ہیں
======================================================================
تاخیر ہو چکی تھی ، صبح ددوپہر میں ڈھلنے لگی تھی جب وہ اپنے مطلوبہ مقام تک پنہچی. اس کے مقالہ پڑھنے کا جو وقت مقرر تھا وہ گزر چکا تھا اور استقبالیہ پر موجود لوگوں کو وہ اپنے تاخیر سے پہنچنے کی معذرت کر رہی تھی.
"میم آپ ٹھیک کہ رہی ہیں لیکن آپ کا سیشن مس ہو چکا ہے ، اب ہم نہیں جانتے کہ آپ کو دوبارہ ایڈجسٹ کیا جا سکے گا یا ، نہیں زینیا سمجھ رہی تھی وہ کیا کہنا چہ رہا ہی مگر وہ اپنی اتنی محنت سے تیا رکئے ہوے پریزنٹیشن کوضا یا ہوتے ہوے بھی نہیں دیکھ سکتی تھی.
کیا میں کسی آرگنائزر سے بات کر سکتی ہوں پلیز ؟"
کسی گزارتے ہوے شخص کے ساتھ اسے ہال کی جانب روانہ کیا گیا اس پیغام کے ساتھ کے اسے ڈاکٹر عمر سے ملوا دیا جاتے
کانفرنس ہال میں محفل برخاست ہو چکی تھی . لوگ ٹولیوں میں کھڑے گفتگو کر رہے تھے، کچھ لوگوں کا رخ لابی کی جانب تھا. کسی نے اس کا تعارف ڈاکٹر عمر سے کروایا
oh dr. zeeniya shah from nathia gali hospital? and your paper on maternal mortality in galiyat region?
آپ کہاں تھیں ? آپ کی پریزنٹیشن کے لیے تو یہاں انتظار ہو رہا تھا
|راستے میں دھند بہت تھی" وہ کچھ حیرت زدو سے لہجے میں گویا ہوئی "
|ہم نے کوشش کی تھی کے مندوبین ایک شام پہلے پہنچ جایں شاید آپ تک ای میل نہیں پہنچی تھی ؟"
میرے لیے یہ ممکن نہیں تھا" ، وہ دھیمے سےبولی "
،
"کوئی بڑا مسلہ نہیں ہے ، ہم آپ کی پریزنٹیشن کو ری ایڈجسٹ کرتے ہیں،تب تک آپ لنچ سے لطف اندوز ہوں "
زینیا کو لگا جیسے اتنا خوش اخلاق ڈاکٹر اس نے زندگی میں پہلی بار دیکھا ہو
یہ امید نہیں تھی اسے کہ اتنی آسانی سے یہ مسلہ حل ہو جاتے گا ،وہ پر سکوں ہو کر لوگوں کی بھیڑ میں شامل ہو گئی
===================================================================
Comments
Post a Comment