دھند 6
درد کوئی بھی صورت ڈھال لے، سہنا کٹھن ہوتا ہے پر کوئی پیار سے ہاتھ تھام لے تو شدّت کچھ کم ضرور ہو جاتی ہے
اور زیب گل تو تنہا تھی، بہت سے نام نہاد رشتوں کی مجودگی کے .با وجود . اس کا شوہر گھر پر موجود نہیں تھا اور اگر موجود بھی ہوتا تو اسے کوئی ہمدردی محسوس نہیں ہونی تھی
درد اٹھانا تو عورتوں کا کام تھا ، اولاد پیدا کرنے کے لیے یہ سب تو معمول کی باتیں تھیں اس بڑے ہسپتال کی ڈاکٹرنی نے زیادہ ہی زیب گل کا دماغ خراب کیا ہوا تھا
اسے اس بڑے ہسپتال نہی لے جایا گیا ، مقامی دائی کی خدمات ایسے ہی وقت میں حاصل کی جاتی تھیں یہی گاؤں کا دستور تھا ، زیب گل کوئی کہانی کا انوکھا کردار تو نہیں تھی . دائی کی دوا کھا کر وہ غافل ہو چکی تھی
=================================================================
محبّت کے اعتراف بڑے ہی جان فضا ہوتے ہیں چاہے زبان سے کیے جایں یا رویوں سے . کوئی نئی روح پھونک دی جاتی ہے ، مرجھاے ہوے چہرے کھل اٹھتے ہیں، افسردہ نگاہیں چمکنے لگتی ہیں اور ہر منظر گویا روشن ہو جاتا ہے
احسن شاہ بخاری کی جانب سے ہونے والے اعتراف بہت بڑے تو نہیں تھے مگر اتنے اہم ضررو تھے کہ زینیا شاہ آج کھل کر مسکرائی تھی
کوئی اپنی پہلی محبّت کی بےرخی کیسے سہ سکتا ہے ، زینیا کے لیے زندگی میں کوئی سب سے شاندار، کامیاب، اور مکمّل مرد تھا تو وہ اس کا باپ تھا ، وہ ان کے لیے جتنی حسساس تھی شاید اتنی اپنی ماں کے لیے بھی نہی رہی تھی ، اس نے ہمیشہ اپنے باپ میں اپنا آئیڈیل دیکھا تھا ،
وہ آکسفورڈ کے تعلیمیافتہ تھے ، زندگی میں کامیابی کے علاوہ انہوں نی کچھ نہیں دیکھا تھا ،
سیاست اور دولت ان کے گھر کی لونڈی تھیں ، عورتیں ان کے آس پاس تتلیوں کی طرح منڈلاتی تھیں ، بہت مصروفیت کے با وجود انہوں نی اپنے گھر والوں کو کبھی نظر انداز نہیں کیا تھا،
اسکے باوجود بھی زینیا کو ان سے شکایتیں تھیں
جہاں لگاؤ گہرا ہو وہاں شکوہ بھی بڑا ہوتا ہے ، جذبے بن باس نہیں لیتے ، ناراضگی ہو یا دل لگی ، وہ رشتہ جوڑے رکھتے ہیں
سو زینیا شاہ آج خوش تھی ، وہ ان کے رائل سویت سے اپنے کمرے میں چلی آئی تھی، شام گہری ہونے لگی تھی
بھوربن کی شام بڑی حسین ہوتی ہے
جہاں شام کی شفق آسمان کو گلابی رنگنے لگتی ہے وہیں ہوٹل کے اندر اورباہر ڈھلوانوں والے گھاس کے قطوں ، سوئمنگ . پولس اور اوپن ایئر کی سیڑھیوں پر زندگی جاگنا شروع ہو جاتی ہے
ایسا لگتا ہے لوگ وہاں صرف خوشیاں کشید کرنے آتے ہیں
وہ اپنے کمرے کی کھڑکی سے نیچے نظر انے والے منظر میں خوشی کو گنگناتا سنتی رہی
دور اوپن ایئر کی سرخ سیڑھیوں کے پاس اس نے عمر حیات کو کھڑے دیکھا ، رات کے کنسرٹ کا اہتمام تھا شاید ، وہ لوگوں کو ہدایات دیتا انتہائی پروفیشنل لگ رہا تھا ،صبح کے فارمل سیٹ کی نسبت ، براؤن لیدر جیکٹ اور جینس میں ملبوس زینیا کو وہ زیادہ جاذب نظر لگا
وہ بلا وجہ مسکرائی اورتیار ہونے چل دی
============================================================
Comments
Post a Comment