دھند 2

 ہوٹل کے باہر طویل گھاس کے قطوں کے پار ، اونچے پہاڑوں کے درمیان اونچی نیچی پگڈنڈیاں گھنے تناور درختوں کے درمیان راستہ بناتی جنگل کے کسی اندروں کو جاتی  تھیں اور اس وقت گہری دھند میں ڈھکی  ہوئی تھیں وہیں لنچ کے طور پر جنگل بار بی کیو  کا اہتمام تھا  

برقی  قمقمے کسی حد تک روشنی  کا سامان تو کرتے تھے مگر کوئی چہرہ بہت واضح نہیں  ہوتا تھا . وہ تنہا ایک  تنے کے ساتھ لگ کر کھڑی تھی موسم کی شدت اور لوگوں کی  جولانیوں کو محسوس کر رہی تھی.. اکثر ایسی محفلوں میں لوگ پرانی دوستیاں نبھاتے دکھائی دیتے ہیں ، اس کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا بلکہ وہ تو یہ دعا مانگتے یہاں آئی تھی کہ اسے کوئی جاننے والا نہ ملے

کھانا کھانے  سے زیادہ اسے کافی میں دلچسپی تھی. وہ اپنا کافی کا کپ سنبھالتی ، شال کو ہونے گرد کچھ اور اچھی طرح لپیٹ تی ،بھیڑ سے کچھ دور نکل آئی تھی

تنہائی کبھی کبھار بڑا لطف دیتی ہے، اور خاص طور پر جب آپ ایک حسین منظر کا حصّہ بننے جا رہے ہوں.

مگر ہر دعا کب پوری ہوا کرتی ہے

وہ وہی ڈاکٹر عمر تھا جو اسے ڈھونڈتے وہاں چلا آیا تھا

"ہم نے آپ کی پریزنٹیشن کو آخری سیشن کی ابتدا میں ایڈجسٹ کر دیا ہے ، تین بجے کے قریب"

"تھنک یو سر "

"ویسے نتھیا گلی سے پہلے آپ کہاں ہوتی تھیں، اگر آپ برا نہ مانیں تو" وہ شائستگی سے انگریزی میں پوچھنے لگا

زینیا نے ایک نہ سنائی دینے والی طویل سانس کھینچی

"پتا نہیں کیوں مجھے محسوس ہو رہا ہے میں نے  آپ کو کہیں دیکھا ہے

یہی وہ جملے تھے جن سے بچنے کی وہ دعا مانگ رہی تھی اور جن کی وجہ سے اس نے شہری محفلوں میں جانا ختم کیا تھا

"میں ہمیشہ سے وہیں ہوں، اتنا عرصہ  ہو چکا اب تو" بہت مبہم جواب تھا " عمر مسکرا دیا

"ماننا تو مشکل ہے مگر ماں لیتا ہوں ، دراصل آپ کو دیکھ کر لگتا ہے آپ بہت ریفائنڈ سی شہری خاتون ہیں، بل کہ پہلی بار |
آپ کو دیکھ کر تو یہ بھی نہیں  لگتا کہ آپ پاکستانی ہیں، نتھیا گلی تو بہت چوٹی سی جگہ ہی "

|"میرے پاس اب ہی ووہی جواب ہی" وہ دھیمے سے مسکرائی "

"چلیے  ٹھیک ہے ، مان  لیتا ہوں " آپ کہ رہی ہیں تو یہی سچ ہوگا " وہ کھل کر مسکرایا " کھانا تو کھایا آپ نی؟ " میں چلوں |گا اب ، ہمارے چیف گیسٹ  آنے  والے ہیں"

" اوہ ایک اور بات، رات میں ہونے والا کنسرٹ مس مت کیجئے گا، یہیں اوپن ایئر میں "

|جی بلکل. میں کوئی ایونٹ مس کرنے آئی بھی نہیں " اس نے شائستگی سے کہا اور اپنا رخ جنگل  کی جانب کر لیا "

عمر اس عجیب سی مختلف شخصیتوں والی اس لڑکی پر آخری نظر ڈال کر پلٹ  گیا

چند لمحوں بعد اس نے ہوٹل لابی کی جانب قدم بڑھاے ، دھند اب کچھ حد تک چھت  گئی تھی ، کچھ منظر واضح ہونے لگے
تھے.
اونچی نیچی ڈھلوانوں والے اس ہوٹل کےبہت  سے لان اور سوئمنگ پول اور ریسٹورنٹس پار کر کے وہ اندر کی جانب جا رہی تھی جب اس نے کافی سا رے لوگوں کو ایک جگہ جما دیکھا ، یہقیناً یہ مہمان خصوصی کا استقبال ہو رہا تھا

اسے یہ جاننے کی خواہش نہیں تھی کہ وہ کون تھا ، یقینن کوئی اہم شخصیت ہوگی مگر بے ارادہ سی ایک نظر نے اسے وہیں ٹھہرا دیا تھا

کبھی کبھی دعا الٹ پلٹ کر بھی قبول ہو جاتی ہے ،کاش  ہمیں مانگنے کا سلیقہ بھی آ جاے

جیسے کسی نے مٹھی میں لے کر اس کا دل بھینچا تھا

اچانک سے ہی اس کے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہوئی تھی

جس شخص کے ساے سے بھی وہ بچتی پھرتی تھی وہ آج اس کے مقابل ہونے جا رہا تھا

اور کچھ بھی تو نہیں بدلہ تھا اس کچھ سالوں میں ، وہ اب تک وہی تھااتنا  ہی  ، گریس فل ، اتنا ہی شاندار ، بالوں  میں سفیدی کچھ نمایاں تھی مگر یہ تو گریس میں ایک اور اضافہ تھا

وہی لوگوں کی بھیڑ  تھی اس کے گرد ، اور ساتھ چلتی ایک شاندار سی خاتون ،

زینیا نے صرف چند سیکنڈز میں کیا کچھ نہیں دیکھ لیا تھا

وہ لوگ اب اس کے پاس سے گزر کر اندر جا بھی چکے تھے ، اور وہ وہیں کھڑی رہ گئی تھی

جہاں اٹوٹ رشتے ہوں ، جہاں نازک جذبے ہوں ، جہاں دل کے تعلّق ہوں، جہاں محبّت ہو،

رد کی جانے والی انکاری محبّت
زندگی کی پہلی محبّت  وہاں صرف چند سیکنڈز ہی درکار ہوتے ہیں اور  برسوں کے طویل سفر یونہی لمحوں میں طے  کر لئے جاتے ہیں

-----------------------------------------------------------

Comments

Popular posts from this blog

ڈر لگتا ہے

Mustansar Hussain Tarar . (A gesture of gratitude on 75th birthday)