دھند 3
وہ قسمت کی ستم ظریفی پر حیرت زدہ سی ہوٹل کی لابی کی جانب بڑھتی چلی گئی
اس کی پریزنٹیشن کا وقت قریب تھا اور اسے ایک بار پھر اپنی پریزنٹیشن دہرانی تھی. وہ کانفرنس کے میڈیا سنٹر چلی آئی جہاں بہت سے کمپیوٹرز رکھے تھے اور لوگ اپنی پریزینٹیشنز دہرا بھی رہے تھے اور ساتھ ساتھ ایڈٹ بھی کر رہے تھے
اسے اندازہ تھا کہ مہمان خصوصی کی تقریر اور دیگر پر تکلّف تقاریر جاریہوں گی اس لیے دانستہ طور پر وہ ہال میں جانے سے گریز کرتی رہی اور کوئی سو بار دہرائی ہوئی پریزنٹیشن کو ایک بار پھر دہرانے لگی
اسے لوگوں کے مقابل ہونا کبھی مشکل نہیں لگا تھا ، اسے کچھ خاص لوگوں کے مقابل ہونے سے گھبراہٹ ہوتی تھی ، وہ چند لوگ جو اس کی زندگی میں اہم تھے، جن سے دل کے تعلّق جڑے تھے، جن سے دل ہی دل میں وہ سخت خفا تھی ، سو اس وقت بھی وہ کوئی جادو گری کا ورد جاننا چہ رہی تھی جس کی وجہ سے وہ ان دو نگاہوں کی زد میں آنے سے بچی رہے
اسٹیج پر کھڑے ہو کر بولنا تو اس کے لیے کوئی مسلہ نہیں تھا
اور پھر جب پینل انچا رج نے اس کا نام پکارا تھا اور وہ اسٹیج پر جانے لگی تھی ، وہ جانتی تھی کہ کسی ایک شخص کے لیے یہ اس دن کا سب سے برا سر پرا یز تھا
اس کا مقالہ نہایت اہم تھا، اس نے گلیات کے علاقوں میں مجود چند ہسپتالوں میں جا کر یہ ریسرچ کی تھی کہ ان علاقوں میں بچوں کی پیدائش کے وقت ما وں کی اموات کی تعداد ، قدرے زیادہ تھی اور اس نے ان اموات کی ممکنہ وجوہات کو زیر بحث لانے کی کوشسش کی تھی.
یہ مقالہ اس لیے بھی حاضرین کی دلچسپی کا بایس تھا کیوں کہ اس کانفرنس میں بڑے شہروں اور دیگر ملکوں کے تو بے شمار پیپر تھے مگر پسماندہ علاقوں سے ایسی ریسرچ ابھی تک سامنے نہیں آئی تھی
اس نے اپنی پریزنٹیشن کو مقررہ دس منٹوں میں تیس سیکنڈز کم میں ختم کر لیا. حاضرین نے بہت سے سوال پوچھے اور اس کی محنت کو کافی سرا ہا گیا خاص طور پرغیر ملکی اداروں کی جانب سے اسے مزید کام کرنے میں مالی مدد کی پیشکش بھی کی گئی. ڈاکٹر زینیا شاہ کے لیے یہ ایک انتہائی اہم موڑ تھا . وہ جو کچھ ثابت کرنے کے لیے پہاڑوں میں زندگی بسر کر رہی تھی وہ پورا ہوتا نظر آ رہا تھا.
اسے ڈاکٹر عمر مسکراتے ہوے ملے، وہ بھی مسکرا دی .
"میں نی کہا تھا نہ آپ کے پیپر کا یہاں انتظار ہو رہا تھا،ویل ڈان
کچھ دیر تو اسے وہاں بیٹھنا ہی تھا ، وہ خاموشی سی دوسرے لوگو ں کی ریسرچ سنتی رہی ، کوئی آدھے گھنٹے بعد جب وہ ہال سے باہر کی طرف نکل رہی تھی اور اس کا ارادہ اپنے کمرے میں جا کر آرام کرنے کا تھا .
"ہنی"
اسے پکارا گیا تھا
نہیں شاید وہم تھا ، ہنی صرف اس کا نک نام نہیں تھا، اور ویسے بھی اس جگہ اسے کون اس طرح پکارتا
وہ ایک پل ٹھہری تو مگر پھر آگے بڑھ گئی
"ہنی"
اس بار آواز بہت نزدیک سے آئی تھی
، اس نے مڑ کر دیکھا، وہ وہی تھے ،بلکل وہی کوئی تبدیلی نہیں تھی
"کیسے ہیں آپ" ٹھہرے ہوے لہجے میں اس نے پوچھا
ٹھیک ہوں، تم کہاں ہو ، سیل فون بند کیوں ملتا ہے تمہارا؟ کیا نمبر بھی بدل لیا ہے؟ ، اسے غلط فہمی جوئی تھی شاید ، ان کے لہجے میں ناراض گی کیوں تھی؟
"نہیں ووہی نمبر ہے، مصروفیت زیادہ ہی سرجری میں بھی وقت لگ جاتا ہے اس لیےشاید
"واپس کب آنا ہی؟|"
"واپس؟ کہاں؟"
"زینیا ، مجھے بھول گئی ہو مگر اس گھر میں کوئی اور بھی ہے تمہارا "
"گئی تھی میں گھر "
"کب "
"جب آپ نہیں تھے شاید سنگاپور گئے ہوے تھے "
وارڈروب دیکھی تم نے اپنی؟. کبھی دیکھا بھی کیا کچھ لے کر رکھا ہوا ہے میں نی تمہارے لیے ؟"
کیا وہ واقعی شکوہ کر رہے تھے ، اسے خوا مخوا ہنسی انے لگی
اس کی ضرورت نہیں تھی، میں اسلو شاپنگ کے لیے ہی گئی تھی ، یہاں کانفرنس میں آنا تھا اس لیے "
پہلی بار زینیا کو لگا انہوںنے اسے سر سے پیر تک دیکھا تھا
یہ ڈیزانر ویر تو نہی ہے
" لیکن میں اس میں خوش ہوں شاہ صاھب "
اس نے انہیں زچ کرنے کی انتہا کر دی تھی ، اسے دکھ ہونے لگا ، وہ اب انہیں اس طرح پکارے گی؟
دونوں جانب دکھ برابر تھا
دور کھڑا عمر کچھ حیرت سے ڈاکٹر زینیا شاہ کو مہمان خصوصی کے ساتھ باتیں کرتے ہوے دیکھتا رہا
وہ شاندار سی خاتون جو شاہ صاھب کے ساتھ ہر وقت نظر آ رہی تھیں ، وہ اچنک سے چلی آئیں
"شاہ صاھب ہمارا بھی تو تعرف کر واین کافی مصروف لگ رہے ہیں آپ"
زینیا کا جی چاہا وہاں سے بھاگ جاے
"مریم یہ میری بیٹی ہیں ڈاکٹر زینیا شاہ،"
مریم بلا شبہ حیرت زدہ تھی
" اور پلیز ہم کچھ وقت ساتھ گزاریںگے
وہ خوبصورتی سے معذرت کرتے ہوے زینیا کا ہاتھ تھام کر آگے بڑھ گئے
زینیا خاموش تھی ، مگر آج بہت دنوں کے بعد اپنی ذات پر کسی کا استحقاق اسے بہت اچھا لگ رہا تھا
==========================================،
Comments
Post a Comment