دھند 7

وہ بستر پر پڑی کراہ رہی تھی اور  گھر میں اس کے شوہر کی دوسسری شادی کے تذکرے ہو رہے تھے . کیوں کہ زیب گل نے اس تین سالہ شادی میں شادی خان کو ایک بھی اولاد نہیں دی تھی، 
کیا اولاد ہونا نہ ہونا عورت کی ذمے داری ہے؟ کیا عورت کی زندگی کا مقصد شوہر کو خوش رکھنا ، استعمال ہونا  اور بچے پیدا کے جانا ہے؟ 
کیا عورت اپنا کوئی انفرادی وجود، سوچ اور زہن نہیں رکھتی؟ کیا اسے اپنی صلاحیتوں کو استمعال کرنے کا کوئی حق نہیں؟ کیا وہ صرف ایک پتلی ہے جس کے دھاگے کھینچ کر رکھے جاتے ہیں اور پھر اپنی مرضی سے ہلاے  جاتے ہیں؟
  کتنا سچ کہتی تھی بڑے ہسپتال کی ڈاکٹرنی، ہمارے معاشرے میں عورت کی کوئی مرضی نہیں ہوتی، اسے صرف استمعال کیا جاتا ہے، بوجھ سمجھ کر ایک کندھے سے اتار کر دوسرے کندھے پر ڈھو دیا جاتا ہے ، کاش  میں کچھ پڑھی لکھی ہوتی تو اس ڈاکٹرنی کی طرح گھر چھوڑ کر اپنی الگ زندگی گزار  سکتی 

اسے آج زینیا شاہ کی بڑی کمی محسوس ہو رہی تھی، شاید جہاں دکھ سانجھے ہوں وہاں احساس کے بندھن اور گہرے ہو جاتے ہیں 

==============================================

اس نے سرخ ساری بستر پر پھیلائی ، وہ بلکل سادہ سرخ شیفوں کی ساری   تھی ، آج کے ڈنر اور کنسرٹ کے لیے اسے یہی بہتر لگا کہ وہ ساری پہنے. ویسے بھی ایک عرصہ ہو گیا تھا جب اس نے آخری بار  ساری باندھی تھی  شاید کسی ریمپ واک میں 

ساری بھی عجیب لباس ہے ، اگر آپ کو پہننے کا ڈھنگ ہو تو  وہ آپ کے جسم کا ایک حصّہ بن جاتی ہے ، اور اگر آپ اس ڈھنگ سے نہ بلد ہوں یا آپ کا جسم اس سے مناسبت نہ رکھتا ہو تو وہ آپ کو سوتیلا بنا دیتی ہے 


اسے ساری باندھنے کا ہی نہیں ساری سنبھالنے کا ڈھنگ بھی تھا ، اسے یہ بھی ادراک تھا کہ کس موقعے پر کیسے لباس زیب تن کے جاتے ہیں، وہ عام  ماڈلز کی طرح ہر جگہ جینز  پہن کر نہیں جاتی تھی ، حالاں کہ اسے اب اپنے ماڈلنگ  کیریئر کے حوالے سے یاد کیے جانا بلکل پسند نہیں تھا ، مگر اس پروفیشن نے اسے بہت کچھ سکھایا تھا، اور یہ ادراک کہ عورت صرف ایک آبجیکٹ نہیں، دیکھنے، کھیلنے اور استعمال ہونے والی شے نہیں، ،یہ احساس اور ادراک اسے اسی پروفیشن کی بدولت ملا تھا 

اس نے بال اکٹھا کر کے جوڑےمیں لپیٹے ، کانوں میں ڈائمنڈ  کے سٹڈ اور گلے میں سونے کی چین وہ ہمیشہ پہنے رکھتی تھی 

میک اپ کرنا اس کے لیے کچھ مشکل نہیں تھا ، پلنگ کے کنارے بیٹھ کر وہ اپنی ہائی ہیلز کی جوتی پہن رہی تھی جب اس کا سیل فون بجنے لگا 

" جی ڈیڈ بس آ رہی ہوں  " 

کبھی کبھی بہت خوشی ہوتی ہےصرف  یہ سوچ کر کہ کوئی آپ کا منتظر ہے وہ کوئی جس کا آپ نے کبھی طویل انتظار کیا ہو  

ٹھنڈ بہت تھی  اور وہ شیفون کی باریک ساری میں ٹھٹھر جاتی اسی لیے اس نے سیاہی میل نیلے رنگ کی شال لے لی جس کے پلّو پر سرخ کڑھائی تھی، 

اسے دوبارہ پلٹ  کر آئینہ دیکھنے کی ضروررت نہیں تھی 

اسے معلوم تھا وہ کس قدر خوبصورت لگ رہی ہے 

============================================================== 



Comments

Popular posts from this blog

ڈر لگتا ہے

Mustansar Hussain Tarar . (A gesture of gratitude on 75th birthday)