Posts

Showing posts from 2021

اجنبیت

 دنیا کا ہر دکھ اپنی جگہ اور قربتوں کی شدت کے  بعد اجنبی بن جانے اور سرد لہجوں کی آگ میں جلنے کا کرب اپنی جگہ

Its about that!

 Its not about sparks of attraction, heated chemistry and spending each and every moment of life together. Its about how your each heartbeat takes just one name, how your thoughts lead to only one way, how when after so much anger and hurt, you still want to hang on to that one person. How you can not change your path even after someone does change their direction.  After bearing so much pain, and shedding tears you still don't want to give up on that person. How when you have all intention to not compromising, you always end up in compromising just to be around that one person. How after so many years, the feelings never diminishes , only grow fonder.

طلب

 یہ کیا کہ میری طلب ہی ہمیشہ تمہیں صدا دے کبھی تو خود بھی سپردگی کی تھکن میں آؤ کہیں پڑھا  طلب ہی محبت ہے  وہی اولین طلب  کہ جو آگ بجھ رہی ہو اسکی چنگاری کو پھر سے بھڑکا دے  کہ جس کی آس کے بغیر نہ صبح سے شام ہو نہ شام سے رات  وہ جس کی آواز سننے کو ایک ایک پل گنا جائے جس کی ایک جھلک دیکھنے کو انتظار کی کٹھن گھڑیاں گزاری جائیں  ہاں وہی طلب جو بجھ چکی ہے  میں اس طلب کو  اپنے لیے تمہاری آنکھوں میں دیکھنے  کی منتظر ہوں  ہمیشہ رہوں گی 

Deserted

 There is this segment  Of my heart  Which has turned quiet It is soundless  Akin to the silence of death It is as barren as a  Wind effected dusty desert It is as abandoned as a Lonely child left in the  Seclusion of Saffa  When his mother leaves him In search of signs of water  And yet still It is looking for signs  Of your return It is longing for Our reunion.

ایک لمحے کا انتظار

 مجھے بس اس ایک لمحے کی تلاش ہے جس میں تمہارے دل پر اترنے والا ہر جذبہ تمہارے ذہن پر لہرانے والا ہر خیال تمہارے اندر ابھرنے والی ہر کمی میں صرف میں ہوں  وہاں کسی تیسرے کا سایہ بھی نہ ہو  اور وہ مکمل لمحہ میری عمر بھر پر محیط ہو  پھر اس کے بعد میں کسی چیز کی آرزو نہیں کروں گی  نہ کوئ گلہ نہ کوئ شکوہ  میں اس لمحے کے انتظار میں ہوں  اور مجھے یقین ہے وہ جلد آئے گا 

سچ کا لمحہ

 زندگی میں کچھ لمحے سچ کے لمحے ہوتے ہیں  آپ خود پر خود ہی ظاہر ہو جاتے ہیں  بہت سے جذبے جو انا کی چادر تلے چھپا دیے جاتے ہیں  وہ سچ کی روشنائ میں بالکل عیاں ہو جاتے ہیں  ایسے ہی ایک لمحہ موت سے قربت کا لمحہ ہوتا ہے  موت جو آپ کا غرور توڑ کر آپ کو زندگی کے آگے جھکنے پر مجبور کر دیتی ہے  لیکن یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ موت سے بڑا کوئ سچ نہیں  ایسے ہی ایک لمحے نے مجھے ایک بہت عام سی عورت بنا دیا ہے  جسے اپنے ہونے کا اب کوئ زعم نہیں ہے  جو اب زمین کی وسعتوں میں خود کو کوئ معمولی سا پودا سمجھ کر خاموشی کی چادر اوڑھے چپ چاپ ہو گئ ہے  اس ایک لمحے نے اسے بدل کر رکھ دیا ہے جب موت اس سے چند لمحوں کے فاصلے پر تھی  اور اس ایک لمحے میں اس نے اپنے آس پاس صرف گنتی کے چند رشتوں کو محسوس کیا تھا  انگلی پر گنے جانے والے ان رشتوں میں ایک تم تھے  جو مجھ سے صدیوں کے فاصلے ہر موجود ہونے کے باوجود میرے ساتھ کھڑے تھے  اس ایک لمحے نے مجھے ادراک دیا کہ میں جن چند سچی محبتوں کے حصار سی کبھی آزاد نہیں ہو سکتی اس میں ایک تمہاری محبت ہے  بس وہ ایک سچ کا لمحہ تھا 

Destiny

 After many years  Countlesss days  And unmeasurable nights  Of togetherness  It’s so heart burdening  To stay at a distance  From what you considered  Your destiny.  The nights are heavy And the days are worthless  Without your presence  And besides everything that  Happened or did not happen I shall wait here  Right here  For my destiny  To seek me  And make whole Once again

بن آہٹ

 میں نے وہ صبح بھی دیکھی ہے  مچلتی ہوئ آرزوئے شب  کے جھلملاتے ہوئے کناروں پر  بھیگتے ہونٹ کپکپاتے رہے مگر کوئ آہٹ نہ ہونے پائ خاموشی گفتگو نہ ہونے پائ نازش امین نومبر ۲۰۲۱

رائیگانی

 تو بھی نہ مل سکا ہمیں عمر بھی رائیگاں گئ  تجھ سے تو خیر عشق تھا خود سے بڑے گلے رہے سلیم کوثر

Adios

 Sometimes you want to laugh and weep at the same time when the scenarios your gut feelings had sketched years ago gradually materialising in front of your eyes Each word you uttered Each thought that crossed you by Each imagination your mind created  Starts to dawn upon you  Even the Creator must be laughing up there  As He says , you plan and I plan  And I am the best of  planners  So this was all his planning  He gradually opened everything to my innocent heart who believed in falsehood for so many years  The time has proven  It’s all lost exactly as I predicted a couple of years ago  The pain remains though  But if a heart can die  So could pain  Adios 

Burning yet again

Image
 

توبدلتا ہے

 تو بدلتا ہے تو بے ساختہ میری آنکھیں  اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں الجھ جاتی ہیں

Infected

"Infected" Inflammation begins With-In Me And yet It was in-evitable, As the Virus of Your Memories  Replicated  A millionth time Invading Every cell of my being! Dr.Nazish Nazish Amin Nov 3rd 2011.

اسے بھول جا

 وہ تیرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پر برس گئیں  دل بے خبر میری بات سن اسے بھول جا اسے بھول جا

قیمتی اثاثہ

 اثاثہ صرف ملکیت تو نہیں ہوتی ۔ مال ، اولاد، گھر ، جائیداد ، زیور، کھیت ، باغات بس یہی تو سب کچھ نہیں ہوتا  یہ تو دنیاوی اثاثے ہیں جن کا جسمانی دنیا سے تعلق ہے  کچھ اثاثے روح کے بھی ہوتے ہیں جو برسوں کی لگن ، جستجو اور وقت کے بعد اکٹھے کیے جاتے ہیں  جن سے ہماری روح کی تسکین کا سامان ہوتا ہے اور یہ ہر ایک کے نصیب میں ہوتے بھی نہیں  ایک باوفا ساتھی ، ایک ہمدرد دوست ، ایک اچھے برے ہر وقت میں برابر کھڑا رہنے والا انسان ، ایک وہ شخص جو رونے کی کے لیے کاندھا ہی نہ دے بلکہ جینے کی نئی امید بن کے موجود رہے ، ایک ایسا انسان جو آپ کا تھاماہاتھ کسی حال میں نہ چھوڑے یہ ہوتا ہے روح کا اثاثہ  اور یہ بہت نصیب والوں کو عطا ہوتا ہے  پھر جب ہم ناقدری کریں بے وفائ کریں دھوکہ دیں اور خاموشی سے راہ بدل لیں تو وہ لوگ خود بھی خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں ان لوگوں کی طرح جنہیں وہ اس لمحے میں چھوڑ کر جا رہے ہوتے ہیں  تم پر تو مان تھا خود سے بڑھ کر تم میرا قیمتی اثاثہ تھے 

Never forgiven

 I can forgive you for changing your path  But I will never forgive you for taking away my asset  My asset was the person I trusted most in this whole world And you shattered that into millions of pieces  I will never forgive you 

اسکیچ

پنسل   دبا   کر   ہونٹوں   میں کئ   پہر     سوچ   میں   بیت   گئے   دو   آنکھیں   بنانا   تھیں   مجھ   کو جو   مجھ   کو   تکتی   رہتی   تھیں   جہاں   سچے   جذبے   بستے   تھے   جہاں   میرے   سپنے   پنپتے   تھے   دو   ہونٹ   بنانا   چاہتی   تھی   معطر   تھا   جہاں   حرف   سخن لفظ   لفظ   جہاں   پوتر   تھا   اور   رنگا   ہوا   تھا   دلُ   کا   صحن اس   آواز   کو   عکس   بنانا   تھا   جو   صرف   میرے   لئے   بہکتی   تھی اس   سانس   کو   تصویر   کرنا   تھا   جو   مجھ     ہی   کو   مہکاتی   تھی   وقت   تھمُ   گیا   جب   میں   نے   پنسل   سے   کھینچی   لکیروں   میں   وہ   عکس   دیکھا   جو   خالی   تھا   ہر   جذبہ   سے   ،   ہر   موسم   سے   دو   آنکھیں     جیسے   چپ   چپ   سی   وہ   ہونٹ   بالکل   ساکن   تھے   نہ   حرف   تھے   وہ   نہ   رنگ   سخن   وہ   عکس   نہ   مجھ   سے   بن   پایا   کئ   پہر   سوچ   میں   بیت   گئے  

Silent death

 A death before death  I died multiple times In the past few years First when you swiftly  Drifted away  To seek her instead In silence , I died  Then the day you Ignored me As if you have  No vision remaining  As if you can’t hear anything  When my words , whispers,  Tears and  begging  Remain unheard I died a silent death Third when I heard  You saying  It was centuries ago  You fell in love with  A woman Something broke inside As from the very present To the forgotten past  You threw my memories  In trash bin  And didn’t even forget  To close the lid I died another Silent death . 

ایک کردار ختم ہوا

 آج مجھے تمہارے الفاظ سے موت کی بو آئ اپنی موت کی بو  پھر یوں ہوا کہ ایک لازوال داستان سے ایک کردار کو دانستہ طور پر یکدم ختم کر دیا گیا  کمال تو یہ تھا کہ کہانی لکھنے والا خود اس کردار کے خاتمہ پر تڑپ تڑپ کر رویا تھا 

سفر عشق جولائ ۱۹

 اور کیا ہے اگر سفر عشق نہیں  حج سے بہتر عشق کی تفسیر نہیں  میں نہیں جانتی عالم ارواح کا چلن  ہاں مگر سفر عقیدت نے یہ عقدہ کھولا جو بلا ہوش و خبر چلتے چلے جاتے ہیں ہو بہو ایسا ہی کوئ منظر ہوگا  عشق کی ایک صدا اور لبیک کی گونج کیا عقیدت کااس سے بڑا منتر ہوگا  ایک  ہی راہ پر ایک ہی رخ موڑے  سوئے محبوب ہرقافلہ موجزن ہوگا  میں نے تب ہی کسی لمحے میں یہ جانا تھا  روح کے ربط گھڑی بھر کے نہیں ہوتے ہیں   لمس کی دوری ، آواز کا تمام ہو جانا  یاد کے سمندر میں مدوجزر  کے سوا کیاہے  جس کی مٹی سے میری نمو ہوتی رہی  صرف اس مٹی کا رشتہ ہی معتبر ٹھہرا  ایک صدا ، ایک مدھر سی سرگوشی پر دل میں لبیک کی آوازیں بلند ہوتی ہیں  میں پکاروں تو چلے آؤگے تم یہاں، تم صدا دو گے تو چل پڑے گا  یہ قافلہ دل  وقت کی قید سے پڑے ، عمر کی حد سے سوا   سفر عشق  ہے فقط ایک ہی سمت کا سفر  موت اور زندگی کی ہر گردش سے سوا  نازش امین  

بارش ۲۰۲۱

ٹپ ٹپ گرتی بارش میں  حرف حرف بکھری یادوں کو قطرہ قطرہ بہا آئ ہوں 

Effect of time

 After a distance of years between us when you are gonna look at me you will be surprised to count many lines time would leave behind on my then unfamiliar face Nothing will remain  as it was Nothing will be same ever again

Dreams (2021)

I have this box with me with my preserved dreams dreams of us in unison, you and I Dreams of staying in woods and nestling together across a bonfire Dreams of running arms in arms in the monsoon showers Dreams of reading and conversing and writing over the coffee table Dreams of all beautiful moments we wished & yet couldn't have Dreams which had us only & no one else I'm dividing them in two halves tonight, Your dreams and mine So check your mail box, when You wake up on a new day To find your half So you could share them with someone else

Until

My heart had a home Safely tucked under your shoulder My soul had merged  Since eternity, to yours Every tiny thing was in its place Until this twist in the story. #silentwhispers #NazishAmin

دعا

 دعا کو ہاتھ اٹھائے ہیں  بہت دنوں کے بعد  کمال یہ ہے کہ  اب سوال کوئ نہیں  اک ایسی چپ نے اسیر کر دیا ہے کہ اب  جھولی میں گر ے چند آنسوؤں کے سکے شور کر تو رہے ہیں، جواب کوئ نہیں فقط ایک ہی مطلوب ، فقط ایک ہی عشق  زندگی اس ایک طواف کے سوا کچھ تھی بھی نہیں وہ چند لمحے ہی تو حاصل تھے، جو قسمت سے مل گئے تھے تو خوشبو کے قافلے تھے رواں رفاقتوں کے یہ موسم  یوں مختصر ہوں گے  یہ سوچنے کی فرصت بھی  بھلا کب تھی ہمیں تمہاری ذات سے لے کر تمہاری روح تلک مطاف دل کا اتنا سا دائرہ تھا فقط کہاں شگاف پڑا کہاں دراڑ آئ یہ جاننے کی بھی مہلت کہاں مل پائ اور اب خالی جھولی میں اشکوں کے یہ سکے  نوحہ کناں ہیں اس شام غریباں میں یوں کہ بس صرف اک آہٹ ، صرف اک آواز  کہ جس کے انتظار کے سوا  زندگی کا ماخذ کچھ بھی نہیں نازش امین

وصل و ہجر

 ‏ہجر اک وقفۂ بیدارہے دو نیندوں میں ‏وصل , اک خواب ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں. ‏

رقص عشق

 ‏یہ رقص عشق ہے, کہ بے وضو نہیں ہوتا  نہ دل ہو پاک تو حاصل بھی "ھو "نہیں ہوتا

عرفان ستار

 #معروف_شاعر_عرفان_ستّار_کا_یوم_ولادت عرفان ستّار 18 فروری 1968 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم لیبیا کے شہر البیضا میں حاصل کی جہاں ان کے والد جو ڈاکٹر تھے، بغرضِ ملازمت مقیم تھے۔ لیبیا سے واپسی پر کراچی کے بی وی ایس پارسی ہائی اسکول سے میٹرک، اور ڈی جے سائنس کالج سے ۱۹۸۶ میں انٹر اور ۱۹۸۹ میں بی ایس سی کیا۔ ۱۹۹۲ میں انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (I.B.A.) سے MBA کی تعلیم مکمل کی۔ چند برسوں بعد ۲۰۰۴ میں SZABIST, Karachi سے مینیجمنٹ سائنس میں MS کی ڈگری حاصل کی۔ مختلف اداروں میں اعلٰی عہدوں پر فائز رہے۔ ۲۰۱۰ میں کینیڈا منتقل ہوگئے اور اب ٹورنٹو میں مستقل سکونت ہے۔ شاعری کا آغاز کالج کے دنوں میں ہوا، اور ڈی جے سائنس کالج کے مجلّے ’’مخزن‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ ۱۹۹۵ میں جون ایلیا سے ملاقات کے بعد تخلیقی معاملات میں سنجیدگی آئی اور ادبی جریدوں میں کلام شائع ہونا شروع ہوا۔ پہلا اور تاحال شعری مجموعہ ’’تکرار ِ ساعت‘‘ ۲۰۰۵ میں شائع ہوا اور ادبی حلقوں میں بےحد پذیرائی سے نوازا گیا۔ شاعری میں غزل ان کی محبوب ترین صنف ہے۔ شاعری کے علاوہ تنقیدی مضامین اور کتابوں پر تبصرے بھی لکھتے رہے اور اردو

Pain

 The end of love is pain The end of hate is pain and if pain  is, what it had to be Then sit down and mourn

ہجرتیں

 زرد پتے شام پھر بکھرا گئی سانس لیتی ہجرتیں ہیں دور تک

آیت وصل پڑھی

 کوئی تعویذ نہیں چلتا دمِ ہجر کہ یوں جادو ٹونے کا اتارا نہیں ہونے والا پہلی پہلی وہ اذیت ہی مجھے کافی ہے اب مجھے عشق دوبارہ نہیں ہونے والا آیتِ وصل پڑھی اور پلایا پانی اب مرے دل کو خسارا نہیں ہونے والا ‏مجھ سی پاگل کو اشارہ نہیں ہونے والا خاک ہے خاک ستارا نہیں ہونے والا تھوڑا تھوڑا ہی میسر رہے کافی ہے مجھے وہ مرا سارے کا سارا نہیں ہونے والا چند لمحوں کی رفاقت ہے مرے کاسے میں اس محبت پہ گزارا نہیں ہونے والا

کسی کی آنکھ جو پر نم

 کسی کی آنکھ جو پر نم نہیں ہے نہ سمجھو یہ کہ اس کو غم نہیں ہے سوادِ درد میں تنہا کھڑا ہوں پلٹ جاؤں مگر موسم نہیں ہے سمجھ میں کچھ نہیں آتا کسی کو اگر چہ گفتگو مبہم نہیں ہے سلگتا کیوں نہیں تاریک جنگل طلب کی لو اگر مدھم نہیں ہے یہ بستی ہے ستم پر ور دگاں کی یہاں کوئی کسی سے کم نہیں ہے کنارا دوسرا دریا کا جیسے وہ ساتھی ہے مگر محرم نہیں ہے دلوں کی روشنی بجھنے نہ دینا وجودِ تیرگی محکم نہیں ہے میں تم کو چاہ کر پچھتا رہا ہوں کوئی اس زخم کا مرحم نہیں ہے جو کوئی سن سکے امجد تو دنیا بجز اک بازگشتِ غم نہیں ہے امجد اسلام امجد